حکومت پیکا آرڈیننس پر اپنی پوزیشن واضح کرے، کاظم خان

لاہور( نمائندہ خصوصی)کونسل آف پاکستان نیوز پیپرز ایڈیٹرز کے سربراہ کاظم خان نے وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ بدنام زمانہ میڈیا دشمن پیکا آرڈیننس کے حوالے سے اپنی پوزیشن فوری طور پر واضح کرے اور موجودہ کنفیوژن کا خاتمہ کرے۔ انکا کہنا تھا کے عدالتی احکامات اور حکومت کی جانب سے بار بار کی یقین دہانیوں کے باوجود صحافیوں کے خلاف مقدمات میں پیکا دفعات کا شامل ہونا باعث تشویش ہے۔ کاظم خان نے کہا کہ اگر حکومت نے پیکا کے حوالے سے اپنی پوزیشن واضح نہیں کی تو صحافی برادری دوبارہ سے اٹھ کھڑی ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت بزدلی کا مظاہرہ نہ کرے اور آزادی اظہار رائے پر پابندی لگانے کی کوششوں سے باز آ جائے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت کے اکابرین ماضی میں بیکا قانون کی مخالفت کرتے رہے ہیں لیکن خود بر سرِ اقتدار آنے کے بعد میڈیا کی آزادی دبانے کے لیے اسی بدنام زمانہ قانون کو استعمال کر رہے ہیں جو کہ کھلی منافقت ہے۔

کاظم خان نے کہا کہ کونسل آف پاکستان نیوز پیپرز ایڈیٹرز جمہوری حکومت کے ہاتھوں صحافیوں کے خلاف مارشل لاء طرز کے آمرانہ استحصالی اقدامات کی شدید مذمت کرتی یے۔ انکا کہنا تھا کہ پاکستان صحافیوں کے لئے انتہائی خطرناک ملک بن چکا ہے اور اور صحافت ایک سنگین جرم کی حیثیت اختیار کر گئی ہے۔کاظم خان نے صحافیوں پر تشدد، گرفتاریوں، دھمکیوں اور جان لیوا حملوں کے حالیہ واقعات پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ میڈیا مخالف اقدامات، مقدمات کے اندراج اور گرفتاریوں کا عمل فی الفور بند کیا جائے۔ کاظم خان نے کہا ہے صحافیوں کے خلاف مقدمات میں پیکا دفعات کا شامل ہونا باعث تشویش ہے۔

سی پی این ای کے صدر کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف کو اسلام آباد ہائی کورٹ اور صحافتی تنظیموں کا شکر گزار ہونا چاہئے جنہوں نے پیکا آرڈیننس کے کالے قانون کی مخالفت کی تھی اور پیکا ترامیم کو منظور نہیں ہونے دیا۔ میڈیا مخالف قوانین بنانے سے سیاسی جماعتوں کو ہی نقصان پہنچتا ہے۔ کوئی بھی حکومت قانون سازی کرتے وقت ذہن میں رکھے کہ کل وہ بھی اپوزیشن میں ہو سکتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جمہوری حکومت میں صحافیوں پر مارشل لاء طرز کے آمرانہ استحصالی اقدامات کی شدید مذمت کرتے ہوئے سینئر اینکر عمران ریاض خان کی گرفتاری کو غیر آئینی، غیر قانونی، غیر اخلاقی اور ریاستی جبر قرار دیا ہے اور انہیں فی الفور رہا کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 02 جولائی کو سینئر صحافی اور تجزیہ کار ایاز امیر پر نا معلوم افراد نے حملہ کر کے انہیں زدوکوب کیا ۔ اس سے قبل 30 جون کو لاہور میں تحقیقاتی صحافی احمر شاہین پر نامعلوم افراد نے فائرنگ کر کے شدید زخمی کر دیا اور ان کا لیپ ٹاپ لے گئے، چارسدہ کے علاقے شبقدر میں صحافی افتخار احمد کو فائرنگ کر کے شہید کیا گیا۔ جبکہ کئی صحافیوں کو جان لیوا دھمکیوں اور مقدمات کا سامنا ہے۔

کاظم خان نے کہا کہ حکومت اور ریاست کے ناقد سمجھے جانے والے صحافیوں پر حملوں، دھمکیوں اور جان سے مارنے کے واقعات کا تسلسل انتہائی تشویشناک ہے، جبکہ پاکستان صحافیوں کے لئے انتہائی خطرناک ملک اور صحافت ایک سنگین جرم کی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ جبکہ ایک صحافی حق و سچ لکھنے اور رائے کے اظہار کا حق رکھتا ہے اور عوامی رائے عامہ ہموار کرنے کا اہم ذریعہ ہے۔ کاظم خان نے وفاقی حکومت، صوبائی حکومتوں اور ریاستی اداروں سے پر زور مطالبہ کیا ہے کہ صحافیوں اور ان کے اہل خانہ کو تحفظ فراہم کیا جائے اور صحافیوں کو دھمکانے اور حملوں میں ملوث افراد کو گرفتار کر کے قانون کے مطابق سزا دی جائے۔

متعلقہ خبریں