طویل المدتی پالسیوں اورواضح روڈمیپ کے بغیر ترقی ممکن نہیں‘بدقسمتی سے ہم انتخابات سے اگلے انتخابات کی پالیسی سے ملک چلاتے رہے ہیں.عمران خان
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ جب پالیسی طویل المدتی نہیں ہوتی تو ملک کے پاس روڈ میپ نہیں ہوتا اور پھر انتخابات سے انتخابات تک کے فیصلے کیے جاتے ہیں یا مافیاز پالیسی تبدیل کردیتے ہیں‘ بد قسمتی سے پاکستان میں سبزے کا رقبہ بھارت سے بھی کم ہے اور انگریزوں کے چھوڑے ہوئے جنگلات بھی ہم تباہ کرچکے ہیں، اس لیے ہم درخت اگا رہے ہیں، سبزے کے رقبے کو محفوط بنا رہے ہیں، شہروں کا ماسٹر پلان بنایا جارہا ہے تا کہ انہیں پھیلنے سے روکا جائے.
پاکستان کی پہلی الیکٹرک بائیک”جولٹا الیکٹرک“ متعارف کروانے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ الیکٹرک وہیکل پالیسی کے ذریعے مستقبل کی سمت تعین کرنے کا منصوبہ دیا گیا ہے. انہوں نے کہا کہ جن ممالک نے آج تک ترقی کی ہے ان سب میں ایک بات یکساں ہے کہ سب نے مستقبل کا سوچا، چین کی تمام تر ترقی 10 سال سے 30 سال تک کے منصوبوں کا احاطہ کرتی ہے انہوں نے کہاکہ جب تک پالیسی طویل المدتی نہیں ہوتی ملک کے پاس روڈ میپ نہیں ہوتا اور پھر ملک انتخابات سے انتخابات تک کے فیصلے کرتا ہے یا مافیاز پالیسی تبدیل کردیتے ہیں.
انہوں نے کہا کہ بجلی سے چلنے والی گاڑیوں کی پالیسی ہمارے کلین اور گرین پاکستان منصوبے کا حصہ ہے، جب یہ فیصلہ کرلیا جائے کہ ملک کی فضا، دریا اور شہروں کو صارف رکھنا ہے تو اقدامات کرنے ہیں وزیراعظم نے بتایا کہ بد قسمتی سے پاکستان میں سبزے کا رقبہ بھارت سے بھی کم ہے اور انگریزوں کے چھوڑے ہوئے جنگلات بھی ہم تباہ کرچکے ہیں، اس لیے ہم درخت اگا رہے ہیں، سبزے کے رقبے کو محفوط بنا رہے ہیں، شہروں کا ماسٹر پلان بنایا جارہا ہے تا کہ انہیں پھیلنے سے روکا جائے.
انہوں نے کہاکہ پلاننگ نہ ہونے کی وجہ سے اسلام آباد مری تک پہنچ گیا یہ شہر گزشتہ 20 سالوں میں ڈیڑھ گنا تک بڑھ چکا ہے اور سبزہ کم ہوگیا ہے اس لیے اب ہم تمام شہروں کے ماسٹر پلان بنا رہے تا کہ پانی کی فراہمی، کچرے کو ٹھکانے لگانے، ٹریٹمنٹ پلانٹس لگانے کی منصوبہ بندی کی جائے انہوں نے کہا سب سے بڑا مسئلہ آلودگی ہے،لاہور اور پشاور کو باغات کا شہر کہا جاتا تھا، ان دونوں شہروں بالخصوص لاہور میں آلودگی سے انسانی جانوں کے لیے خطرات لاحق ہیں.
انہوں نے کہا کہ ایک اندازے کے مطابق لاہور میں اس وقت پائی جانے والی آلودگی سے ایک انسان کی زندگی کے 11 برس کم ہوجائیں گے، کراچی میں بھی یہی حالات ہیں سیوریج کا پانی سمندر میں گرتا ہے کیوں کہ طویل المدتی منصوبہ بندی نہیں ہے. وزیراعظم نے کہا کہ پہلی مرتبہ ہم پاکستان میں طویل المدتی منصوبہ بندی کررہے ہیں جس کا ایک حصہ الیکٹرک گاڑیاں ہیں اور شہروں کو آلودگی سے بچانے کے لیے ہمیں الیکٹرک بسز، اور زیادہ استعمال کی وجہ سے سب سے زیادہ الیکٹرک موٹر سائیکلز لانی پڑیں گی وزیراعظم نے کہا کہ ہم نے اپنے اوپر ایک ظلم یہ کیا کہ ہم نے شارٹ کٹ راستے اختیار کیے اور یہ نہیں سوچا کہ جو نعمتیں اللہ تعالی نے ہمیں بخشی ہیں ان سے فائدہ اٹھایا جائے.
انہوں نے کہ چیزیں درآمد کرلی گئیں کیوں کہ یہ آسان راستہ تھا اس میں پیسے بھی بن جاتے تھے، لیکن اس کا نقصان یہ ہوا کہ پاکستان میں خام مال کو استعمال کرنے کا کبھی نہیں سوچا گیا اور سب چیزیں درآمد کرنی شروع کردیں. انہوں نے کہا کہ اس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ ملک غریب ہوتا جاتا ہے دولت کی پیداوار نہیں ہوتی، جب درآمد زیادہ ہوتی ہے تو ادائیگیوں کا توازن بگڑ جاتا ہے وزیراعظم نے کہا کہ چین کی تمام تر ترقی برآمدات پر منحصر ہے انہوں نے برآمدات میں اضافہ کیا، ملک میں زیادہ ڈالرز آئے اور دیکھتے دیکھتے چین ایک معاشی طاقت بن گیا ہے لیکن ہمارے ملک میں کبھی اس پر توجہ نہیں دی گئی.
انہوں نے کہا کہ رواں برس پاکستان میں ریکارڈ 26 ارب ڈالر کی برآمدات ہوئیں جبکہ 50لاکھ نفوس کی آبادی والے ملک سنگاپور کی برآمدات کا حجم 300 ارب ڈالر ہے کیوں کہ انہوں نے سوچ سمجھ کر منصوبہ بندی کی انہوں نے کہا کہ ہماری آئندہ ترقی کا راستہ یہ کوشش کرنا ہے کہ پاکستان میں موجود خام مال کو استعمال کیا جائے، ہم پاکستان کا منرل نقشہ بنا رہے ہیں کہ کہاں کیا موجود ہے اور جب آپ یہ معلوم ہوگا تو حیرت ہوگی کہ آپ کا ملک کتنا امیر ہے جس میں کسی چیز کی کمی نہیں ہے.
وزیراعظم نے کہا کہ درآمد سے تھوڑے سے لوگوں کو تو فائدہ ہوتا ہے لیکن ملک کے لیے نقصان دہ ہے، جب ڈالر زیادہ باہر جائیں اور کم آئیں گے تو روپے پر دبا? پڑتا ہے اور اس کی قدر گرتی ہے جس کی وجہ سے مہنگائی ہوتی ہے اور غربت ہوجاتی ہے انہوں نے کہا کہ ہمیں یہ اپنی سوچ بدلنی ہے اور ایسا روڈ میپ پاکستان کو دینا ہے جس میں آنے والی نسلوں اور مستقبل کے بارے میں سوچنا ہے.
انہوں نے کہا کہ ماحولیات اور موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے پاکستان پہلی مرتبہ اتنے بڑے پیمانے پر اقدامات اٹھا رہا ہے اور انہیں بین الاقوامی سطح پر تسلیم کیا جارہا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے کوششوں سربراہی کرنے والے مملک میں پاکستان شامل ہے وزیراعظم نے کہا دوسری مہم دولت میں اضافہ کرنا ہے اور معیشت جو ترقی کرنا شروع کرچکی ہے اسے ڈالرز کی کمی کی وجہ مسائل کا سامنا ہوسکتا ہے لہٰذا ابھی سے ہم وہ تمام اقدامات کررہے ہیں کہ ڈالرز کی کمی نہ ہو اور شرح نمو متاثر نہ ہوسکے.
انہوں نے کہا کہ اس کے لیے جو چیز ہم پاکستان میں بناسکے بنائیں گے، جو خام مال پاکستان میں دستیاب ہے اسے استعمال کریں اور تمام سرمایہ کاری اس طرح کی جائیں کہ پاکستان سے مصنوعات برآمد کی جائیں انہوں نے کہا کہ مجھے اس ملک کے عوام پر اعتماد ہے، جب بھی کوئی آزمائش آئی تو ہمارے لوگ کھلے دل سے آگے بڑھے، وہ اگر ٹیکس نہیں دے رہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ انہیں اعتماد ہی نہیں تھا کہ ہمارا ٹیکس درست طریقے سے استعمال ہوگا اس لیے ہم ان کا اعتماد بحال کررہے ہیں.
انہوں نے کہا کہ لوگوں میں اعتماد بحال کررہے ہیں کہ ان کا ٹیکس ان کے لیے ہے، اس لیے ہم اپنے خرچے کم کررہے ہیں، 3 سال کے عرصے میں وزیراعظم ہا?س، وزیراعظم سیکرٹریٹ کے اخراجات ایک ارب 8 کروڑ روپے کم کیے گئے اور بین الاقوامی سفر سے بھی پیسہ بچایا گیا. انہوں نے کہا اس سب کا مقصد اپنے ٹیکس دہندگان کو یہ بتانا ہے ہم آپ کے ٹیکس کی قدر کرتے ہیں اور آپ کا ٹیکس آپر خرچ ہوگا اور جیسے جیسے ان کا اعتماد بحال ہوگا ہماری ٹیکس کلیکشن بہتر ہوتی جائے گی اور دولت میں اضافے کے بعد ملک اپنے پیروں پرکھڑا ہوسکے گا انہوں نے یہ ذہنی غلامی ہے کہ سمجھا جائے کہ جب تک باہر سے قرض یا امداد نہیں ملے گی ملک آگے نہیں بڑھے گا، وزیراعظم باہر سے آئے تو کامیاب دورہ اسے سمجھا جاتا ہے کہ کتنی امداد ملی لیکن جب تک انسان بیساکھیوں سے چلتا ہے اسے اپنی صلاحیت کا معلوم ہی نہیں ہوتا اس لیے پاکستان اب اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کی راہ پر چل دیا ہے.