وفاقی بجٹ میں تنخواہوں، پنشن میں اضافہ، برانڈڈ کپڑے مہنگے، سولر پینلز سستے، کم از کم اجرت 32 ہزار، 223 ارب کے اضافی ٹیکس
اسلام آباد ( نمائندہ مقامی حکومت) وفاقی حکومت نےآئندہ مالی سال 2023-24ء کا 144؍ کھرب 60؍ ارب روپے کا بجٹ پیش کردیا ہے ۔ جس میں 69؍ کھرب 24؍ ارب روپے کا خسارہ ہے جبکہ بجٹ کا تقریباً نصف حصہ 73؍ کھرب 3؍ ارب روپے قرض اور سود کی ادائیگیوں کیلئے مختص کیا گیا ہے۔ تاہم 11؍ کھرب کا تاریخی ترقیاتی پروگرام رکھا گیا ہے ،کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا۔ ایف بی آر کیلئے ٹیکس وصولیوں کا ہدف 92؍ کھرب ہے ۔ بجٹ میں 223؍ ارب روپے کے اضافی ٹیکس عائد کردئیے ہیں اور محصولات کی وصولی کا بڑا حصہ انکم ٹیکس کے ذریعے حاصل کیا جائے گا۔ بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ کیا گیا ہے اور کم از کم اُجرت 32ہزار روپے کرنے کی تجویز دی گئی ہے ۔ بجٹ میں برانڈڈ کپڑے مہنگے اور سولرپینلزسستے ہوگئے ،نئے بجٹ کے تحت پرانے بلب اور روایتی پنکھے مہنگے ہوں گے، روایتی پنکھوں پر دو ہزار روپے فی کس ایکسائز ڈیوٹی اورپرانے بلب پر بیس فیصد ریگولیٹر ڈیوٹی عائد کرنے کا فیصلہ کیا گیاہے، صنعت و زراعت کیلئے مراعات تجویز کی گئیں ، امیروں پر سپر ٹیکس برقرار ہے ، نان فائلرز کیلئے بینک چارجز اور خدمات پر ٹیکس کی شرح میں اضافہ، چمڑے کی مصنوعات اور کپڑوں کے ریٹیل سیکٹر پر15فیصد GST، پرانی غیرملکی گاڑیوں پر ٹیکس کی حد ختم، EOBI پنشن 10ہزار، ٹیٹراپیک دودھ، دہی، مکھن، پنیر، مچھلی، مرغی کا گوشت اور انڈوں کے پیکٹ پر18 فیصد، کافی ہائوسز، فوڈ آئوٹ لیٹس پر 5 فیصد ٹیکس لگے گا،سمندرپار پاکستانیوں کیلئے پراپرٹی خریدنے پر ٹیکس میں کمی، پرانے کپڑوں پر ڈیوٹی ختم، ٹائلز ، کموڈ ، شاور اور نل سستے ہوگئے ۔ بجٹ تقریر کرتے ہوئے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا کہ اس سال کوئی نیا ٹیکس عائد نہیں کیا جا رہا اور حکومت کی کوشش ہے کہ ملک میں عوام کو زیادہ سے زیادہ ریلیف دیا جائے، معاشی مشکلات اور مہنگائی کی مکمل ذمہ دار PTIحکومت ہے۔ تفصیلات کے مطابق 14ہزار460ارب روپے حجم کا وفاقی بجٹ پیش کر دیا ، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں ایڈہاک ریلیف دیاگیا ہے ، گریڈ ایک سے 16تک کے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 35فیصد ، گریڈ 17سے 22تک کے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 30فیصد اضافہ کر دیاگیا ہے اور سرکاری ملازمین کی پنشن میں ساڑھے 17فیصد اضافہ کر دیا گیا ہے، سرکاری ملازمین کے 6منجمد الائونسز میں بھی اضافہ کر دیاگیا ہے ، وفاقی دارلحکومت اسلام آباد میں کم سے کم اجرت 25ہزار روپے ماہانہ سے بڑھا کر 32ہزار روپے ماہانہ کر دی گئی ہے ، وفاقی وزیر خزانہ سینٹر اسحاق ڈار نے وفاقی بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کیا ، ، آئندہ مالی سال بجٹ خسارہ 6.54فیصد ، ٹیکس ریونیو کا ہدف9200ارب روپے ، نان ٹیکس ریونیو کا ہدف 2963ارب روپے مقرر کیا گیا ہے ، سودکی ادائیگیوں کےلیے 7303ارب روپے خرچ ہونگے ، وفاقی ترقیاتی پروگرام کے لیے950ارب روپے مختص کیے گئے ہیں ، پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت 200ارب روپے رکھے گئے ہیں اس طرح مجموعی ترقیاتی بجٹ 1150ارب روپے مختص کیا گیا، صوبوں کے ترقیاتی پروگرام کا ہدف 1559ارب روپے رکھاگیا ہے ، دفاع کےلیے 1804ارب روپے ، سول انتظامیہ کے اخراجات کےلیے 714ارب روپے مختص کیے گئےہیں ، پنشن کی مد میں 761ارب روپے مختص کیے گئے ہیں ، بجلی ، گیس اور دیگر شعبوں پر سبسڈی کےلیے 1074ارب روپے مختص کیے گئےہیں ، آئندہ مالی سال جی ڈی پی کی شرح 3.5فیصد رہنے کا تخمینہ ہےجبکہ اوسط مہنگائی کی شرح کا اندازہ21فیصد لگایاگیا ہے، اگلے سال برآمدات کا ہدف 30ارب ڈالر اور ترسیلات زر کا ہدف 33ارب ڈالر ہوگا، بی آئی ایس پی پروگرام کےلیے 450ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے، انفراسٹرکچر کے شعبے میں ٹرانسپورٹ اور مواصلات کےلیےمجوزہ رقم 267ارب روپے ، آبی شعبے کےلیے 100ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے، توانائی کے شعبے کے لیے مجوزہ رقم 80ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے،مہمند ڈیم منصوبے کےلیے ساڑھے 10ارب روپے ، داسو ہائیڈرو پاور پروجیکٹ کےلیے ترجیح بنیادوں پر 59ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے، دیامر بھاشا ڈیم کےلیے 20ارب روپے فراہم کیے جائیں گے ، سپلائز ، کنٹریکٹ اور خدمات پر ود ہولڈنگ ٹیکس کی شرح میں اضافہ کیا گیا ہے، انفرادی سطح پر، کمپنیوں ، ایسوسی ایشن آف پرسنز پر ودہولڈنگ ٹیکس کی شرح میں ایک فیصد اضافہ کیا جائے گا، سروسز پر ٹیکس کی شرح میں ایک فیصد اضافہ کیا جائے گا، سپر ٹیکس کےلیے کم سے کم حد 15کروڑر وپے مقرر کی گئی ہے، کمرشل درآمدات پر ودہولڈنگ ٹیکس کی شرح میں 0.50فیصد اضافہ کرنے کی تجویز ہے، لسٹڈ اور نان لسٹڈ کمپنیوں پر 10فیصد ٹیکس عائد کرنے کی تجویز ہے، نان فائلر کی بنکوں سے 50ہزار روپے سے زائد کی ٹرانزکشن پر 0.6فیصد ٹیکس عائد کر دیاگیا ہے،کریڈٹ کارڈ، ڈیبٹ کارڈ اور بینکنگ چینلز کےذریعے غیر ملکی کرنسی کو باہر بھیجنے کےلیے فائلر پر ود ہولڈنگ ٹیکس کی شرح ایک فیصد سے بڑھا کر 5فیصد کر دی گئی اور نان فائلر پر 10فیصد ٹیکس عائد کیاگیاہے ، چمڑےا ور ٹیکسٹائل کی مصنوعات کے ٹیئر ون کے ریٹیلرز پر جنرل سیلز ٹیکس کی شرح12فیصد سے بڑھاکر 15فیصد کر دی گئی ، فاٹا اور پاٹا کے ضم شدہ اضلاع کو دی گئی ٹیکس چھوٹ میں مزید ایک سال کی توسیع کی گئی ہے، ٹیئر ون ریٹیلرز کے لیے کورڈ رقبہ پر ٹیکس کی شرط ختم کر دی گئی ہے،پرانی اور استعمال شدہ 1300سی سی سے اوپر کی گاڑیوں پر ڈیوٹی اور ٹیکسوں کی کیپنگ ختم کر دی گئی ہے، گلاس کی مختلف اقسام کی درآمد پر 15فیصد سے 30فیصد تک ریگولیٹری ڈیوٹی عائد کر دی گئی ، وفاقی دارالحکومت میں ڈیجیٹل ادائیگیوں کی حوصلہ افزائی کیلئے ریسٹورنٹ پر کریڈٹ کارڈ کے ذریعے رقم ادا کرنے ٹیکس کی شرح 15فیصد سے کم کر کے 5فیصد کر دی گئی ہے۔ سرکاری ملازمین کی کم سے کم پنشن 10ہزار روپے سے بڑھا کر 12ہزار روپے کر دی گئی ، ای او بی آئی کی پنشن ساڑھے 8ہزار روپے سے بڑھا کر 10ہزار روپے کر دی گئی ، ہائوس بلڈنگ فنانس کارپوریشن کی مقروض بیوائوں کے 10لاکھ روپے تک کے بقیہ قرضہ جات حکومت ادا کرے گی ، قومی بچت کے شہدا اکائونٹ میںڈیپازٹ کی حد 50لاکھ روپے سے بڑھا کر 75لاکھ روپے کر دی گئی، بہبود سیونگ سرٹیفکیٹ میں ڈیپازٹ کی حد50لاکھ روپے سے بڑھا کر 75لاکھ روپے کر دی گئی۔نئے بجٹ کے تحت پرانے بلب اور روایتی پنکھے مہنگے ہوں گے، روایتی پنکھوں پر دو ہزار روپے فی کس ایکسائز ڈیوٹی اورپرانے بلب پر بیس فیصد ریگولیٹر ڈیوٹی عائد کرنے کا فیصلہ کیا گیاہے۔ درآمدی شیشہ بھی مہنگا ہوجائے گا۔ سولر پینل سستے ہوں گے، سولر پینل کی مینوفیکچرنگ کے خام مال پر کسٹمز ڈیوٹی ختم، سولر پینل کی مشینری کی درآمد پر بھی کسٹمز ڈیوٹی نہیں دینا ہو گی۔ بیٹریز کی تیاری میں استعمال ہونے والے خام مال پر بھی ڈیوٹی ختم کر دی گئی، انورٹر کے خام مال پر بھی ڈیوٹی کا خاتمہ کر دیا گیا ہے۔ لیدر کے جوتے، جیکٹس، پرس اور مہنگے ہوں گے، حکومت نے سیلز ٹیکس بارہ سے بڑھ کر پندرہ فیصد کر دیا، کپڑوں سمیت ٹیکسٹائل کی مصنوعات بھی مہنگی ہوں گی، ٹائلیں، کموڈ، شاور اور نل سستے ہوں گے، ڈائپرز کی قیمتوں میں بھی کمی آئے گی، حکومت نے سینیٹری، ڈائپرز اور نیپکنز کے خام مال پر کسٹمز ڈیوٹی ختم کر دی۔مولڈز اینڈ ڈائیز کی تیاری کے لئے خام مال پر کسٹمز ڈیوٹیز میں استثنیٰ دینے کی تجویز شامل ہے۔ مائننگ مشینری،رائس مل مشینری اور مشین ٹولز کے لئے خام مال میں کسٹم ڈیوٹیز کے استثنی کے بعد اشیا سستی ہوں گی۔اسلام آباد میں ہوٹلوں پر کھانا سستا ہو گا، حکومت نے ٹیکس کی شرح سترہ سے کم کر کے پانچ فیصد کر دی، سہولت کریڈٹ کارڈ سے رقم ادا کرنے والوں کو ملے گی۔ہیوی کمرشل وہیکلز کی نان لوکلائزڈ پر 10 فیصد کسٹم ڈیوٹی میں 5 فیصد کمی کردی گئی۔تیرہ سو سی سی سے اوپر کی گاڑیوں پر ٹیکس کیپنگ ختم کر دی گئی۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ اگلے مالی سال میں 50ہزار زرعی ٹیوب ویلز کو شمسی توانائی پر منتقل کرنے کیلئے 30ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔معیاری بیج ہی اچھی فصل کی بنیاد ہیں، ملک میں معیاری بیجوں کے استعمال کو فروغ دینے کیلئے ان کی درآمد پر تمام ٹیکسز اور ڈیوٹیز ختم کی جا رہی ہیں، اسی طرح سیپلنگزکی درآمد پر کسٹم ڈیوٹی ختم کی جا رہی ہے۔فصلوںپر تمام ڈیوٹی اور ٹیکسوں سےا ستثنیٰ دینے کی تجویز ہے، چاول کی پیداوار کےلیے سیڈر، رائس پلانٹراور ڈرائرز کو ڈیوٹی و ٹیکسوں سے استثنیٰ دینے کی تجویز ہے، زرعی صنعت کو رعایتی قرضوں کی فراہمی کےلیے 5ارب روپے مختص کیے گئے ہیں ، دیہی علاقوں میں لگائے جانیوالے ایگرو کے انڈسٹریل یونٹس جن کی سالانہ آمدن 80کروڑ روپے تک ہو گی ان کو تمام ٹیکسوں سے پانچ سال کے مکمل استثنیٰ ہوگا، وزیراعظم یوتھ بزنس زرعی قرضہ سکیم کے تحت چھوٹے اور درمیانے درجے کے آسان قرضوں کو جاری رکھا جائے گا اور اس مقصد کیلئے اگلے مالی سال میں مارک اپ سبسڈی کیلئے 10 ارب روپے فراہم کئے جائیں گے۔فری لانسرکو ماہانہ سیلز ٹیکس گوشوارے جمع کرنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا تھا، کاروباری ماحول میں آسانیاں پیدا کرنے کیلئے 24 ہزار ڈالر تک سالانہ کی برآمدات پر فری لانسر کو سیلز ٹیکس رجسٹریشن اور گوشواروں سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے۔ آئی ٹی شعبہ کو ایس ایم ای کا درجہ دیا جارہا ہے اور اس شعبے کو رعایتی انکم ٹیکس شرح سے فائدہ ہوگا، آئی ٹی کے50ہزارآئی ٹی گرایجویٹ کو تربیت فراہم کی جائے گی ، تعمیرات ، زراعت اور ایس ایم ای کے شعبوں کی حوصلہ افزائی کے لیے بنکوں کوایسے قرضوں سے ہونیوالی آمدن پر 39فیصد کے بجائے 20فیصد رعایتی ٹیکس اگلے دوسال میں 30جو ن 2025ء تک دستیاب ہوگی ، ایس ایم ای کے ٹیکس مراعات کے نظام کو وسعت دے کر ٹرن اوور 25کروڑ روپے سے بڑھا کر 80کروڑ روپے کر دیاگیا ہے۔ وزیراعظم کے یوتھ لون پروگرام کےذریعے چھوٹے کاروبار کو رعایتی قرضوں کی فراہمی کےلیے مالی سال میں 10ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے ،اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی ایک اسکیم کے تحت ایس ایم ای کے قرضوں کو صرف 6فیصد مارک اپ پر ری فنانس کیا جا سکتا ہے، حکومت اس مد میں دئیے گئے قرضوں کا 20فیصد تک خطرہ خود اٹھائے گی۔ ایس ایم ای آسان فنانس اسکیم دوبارہ شروع کی جارہی ہے، ایس ایم ای کےلیے الگ ریٹنگ ایجنسی کے قیام کی تجویز ہے ۔وزیر خزانہ نے کہا کہ وزیراعظم یوتھ پروگرام فار سمال لو ن کے تحت اپنا کاروبار شروع کرنے کے لئے رعایتی ریٹ پر قرضہ جات کی فراہمی کے لئے 10ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔وزیراعظم یوتھ سکلز پروگرام کے تحت نوجوانوں کو خصوصی تربیت دینے کےلیے پانچ ارب روپے مختص کیے گئے ہیں ، بلڈرز اور عام لوگوں کو نئے گھر اور عمارتوں کی تعمیر پر مراعات دینے کے لئے آئندہ تین سال تک تعمیراتی کمپنی کی کاروباری آمدن پر ٹیکس کی شرح میں 10 فیصد یا پچاس لاکھ روپے دونوں میں جو رقم کم ہو رعایت دی جائیگی اور وہ افراد جو اپنی ذاتی تعمیرات کروائیں انہیں تین سال تک دس فیصد ٹیکس کریڈٹ یا دس لاکھ روپے جو رقم بھی کم ہو رعایت دی جانے کی تجویز ہے اس رعایت کا اطلاق یکم جولائی 2023 اور اس کے بعد سے شروع ہونے والے تعمیراتی منصوبوں پر ہوگا، رئیل سٹیٹ انوسٹمنٹ ٹرسٹ سےمتعلقہ ٹیکس مراعات کو 30 جون 2024 تک توسیع دی جارہی ہے۔اگلے مالی سال کے دوران حکومت نےبی آئی ایس پی کی مد میں 450 ارب روپے فراہم کرنے کی تجویز دی ہے۔ یوٹیلیٹی سٹورز کارپوریشن کے لئے 35 ارب روپے سے مستحق افراد کے لئے آٹے چاول چینی دالوں اور گھی پر ٹارگٹڈ سبسڈی دی جائے گی۔ مستحق افراد کے علاج اور امداد کیلئے پاکستان بیت المال کو 4 ارب روپے فراہم کئے جائیں گے۔ یونانی ادویات عام طور پر دیہاتی اور کم آمدنی والے افراد استعمال کرتے ہیں جن کی سہولت کیلئے یونانی ادویات پر سیلز ٹیکس کی شرح 1 فی صد کی جارہی ہے۔ استعمال شدہ کپڑے کم آمدنی والے لوگ خریدتے ہیں اور ان کی درآمد پر اس وقت 10 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی عائد ہے جس کو ختم کیا جارہا ہے، قومی بچت کے سنٹرز کے ذریعے کم آمدن والے افراد کے لئے مائیکرو ڈیپازٹ کی نئی سکیم یکم جولائی 2023 سے شروع کی جارہی ہے جس پر شرح منافع نسبتاً زیادہ ہوگا۔ ایف بی آر نے 2023-24 کے بجٹ میں 223 ارب روپے کے اضافی ٹیکس عائد کردئیے ہیں اور محصولات کی وصولی کا بڑا حصہ انکم ٹیکس کے ذریعے حاصل کیا جائے گا۔ انکم ٹیکس میں اضافے سے 185 ارب روپے کی خالص اضافی وصولی میں مدد ملے گی لیکن مراعات پر 10 ارب روپے کا اثر پڑے گا اس طرح انکم ٹیکس میں خالص اضافے سے اگلے مالی سال 2023-24 میں 175 ارب روپے حاصل ہوں گے۔ سیلز ٹیکس میں ایف بی آر نے 22 ارب روپے کے اضافی اقدامات تجویز کئے اور ٹیکس ریلیف کی کوئی لاگت نہیں ہے۔ کسٹم ڈیوٹی میں ایف بی آر نے 12 ارب روپے کے ٹیکس کے اقدامات تجویز کیے لیکن 13 ارب روپے کا مزید ریلیف دیا، اس لیے خالص اضافہ منفی 1 ارب روپے ہو گا۔ فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی صورت میں ایف بی آر نے 4 ارب روپے کے اضافی ریونیو اقدامات بغیر ٹیکس کی ترغیب کے محصولات کے اثر کے ساتھ کیے ہیں ۔ چاروں ٹیکسوں میں خالص اضافے سے 2023-24 کے اگلے بجٹ میں قومی خزانے میں 200 ارب روپے حاصل ہوں گے۔ وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار نے اپنی بجٹ تقریرمیں مزید کہا کہ اس سال کوئی نیا ٹیکس عائد نہیں کیا جا رہا اور حکومت کی کوشش ہے کہ ملک میں عوام کو زیادہ سے زیادہ ریلیف دیا جائے۔ کوشش یہ ہے کہ روزگار کے مواقع بڑھائے جائیں۔ کاروبار میں آسانیاں لائی جائیں مالی سال 2016-17ء تک وزیراعظم میاں محمد نوازشریف کی قیادت میں پاکستان کی معیشت کی شرح نمو 6.1 فیصد پر پہنچ چکی تھی۔ افراط زر کی شرح 4 فیصد تھی۔ پاکستان خوشحالی اور معاشی ترقی کی جانب گامزن تھا اور دنیا پاکستان کی ترقی و خوشحالی کی معترف تھی۔ملک میں بجلی کی کمی کو پورا کرنے کے نئے منصوبے مکمل کئے گئے۔ ان حالات میں آناً فاناً منتخب جمہوری حکومت کیخلاف سازشوں کے جال بچھا دیئے گئے۔ جسکے نتیجے میں اگست 2018ء میں ایک سلیکٹڈ حکومت وجود میں آئی۔ اس سلیکٹڈ حکومت کی معاشی ناکامیوں پر اتنا ہی کہنا کافی ہے کہ جو ملک 2017ء میں دنیا کی 24 ویں بڑی معیشت بن چکا تھا وہ 2022 میں گر کر 47ویں نمبر پر آ گیا۔آج پاکستان معاشی تاریخ کے مشکل ترین مرحلے سے گزر رہا ہے۔ میں انتہائی وثوق سے کہنا چاہوں گا کہ آج کی خراب معاشی صورتحال کی اصل ذمہ دار تحریک انصاف کی سابقہ حکومت ہے موجودہ حالات گزشتہ حکومت کی معاشی بدانتظامی، بدعنوانی، عناد پسندی اور اقرباء پروری کا شاخسانہ ہیں ۔ انہوں نے مزید کہا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور وزیراعظم شہباز شریف اور اتحادی جماعتوں کے بھرپور تعاون سے ایسے معاشی فیصلے کئے جا رہے ہیں جن کی وجہ سے ان ملک دشمن لوگوں کے عزائم پورے نہیں ہو پا رہے۔ خدائے بزرگ و برتر نے نہ صرف پاکستان کو ڈیفالٹ سے بچایا بلکہ ان سازشی عناصر کو عوام کے سامنے بے نقاب کیا۔انہوں نے کہا کہ موجودہ مخلوط حکومت کے مشکل فیصلوں کی وجہ سے الحمداﷲ ملک ڈیفالٹ سے بچ گیا ہے اور زرمبادلہ کے ذخائر میں گراوٹ کو کم کیا گیا ہے۔ حکومت نے آئی ایم ا یف پروگرام کے نویں جائزے کی تمام شرائط کو پورا کر لیا ہے۔ آئی ایم ایف پروگرام حکومت کی اولین ترجیح ہے۔ وزیر خزانہ نے قومی اسمبلی میں بجٹ تقریر میں کہا کہ اس امر کا اعادہ کرنا چاہتا ہوں کہ پاکستان کے غیور اور روشن خیال عوام اس حقیقت سے پوری طرح روشناس ہو چکے ہیں کہ انکا اصل دوست اور خیر خواہ کون ہے اور ملک و قوم کا دشمن اور معاشی بدحالی کا ذمہ دار کون ہے۔ محمد شہباز شریف نے بطور وزیراعلیٰ پنجاب اور اب بطور وزیراعظم بھرپور طریقے سے خلوص نیت کیساتھ عوام کی خدمت کی ہے۔